بھولی ہوئی چیز یاد کرنے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کا حکم
Question
سائل پوچھتا ہے: "میری عادت ہے کہ جب میں کسی چیز کو بھول جاتا ہوں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھتا ہوں، اس اُمید کے ساتھ کہ اللہ تعالیٰ مجھے یاد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ کسی نے الزام لگایا کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں یہ بدعت ہے ؛ تو کچھ بھول جانے پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھنے کا کیا حکم ہے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وآلہ وصحبہ ومن والاہ۔ وبعد:
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام کی فضیلت اور اس کا مفہوم:
لفظ "صلاة" کے لغوی معنی دعا اور استغفار کے ہیں، اور اس کی جمع صلوات ہے۔ اس حوالے سے "لسان العرب" میں علامہ ابن منظور نے اس کی وضاحت کی ہے (جلد 14، صفحہ 464، دار صادر)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا میں آپ ﷺ کا ذکر کو بلند کر کے، آپ ﷺ کے دین کا اظہار کر کے، آپ ﷺ کی شریعتِ مطہرہ کو عام کر کے آپ ﷺ کی تعظیم کی جائے، آپ ﷺ کے دین کو ظاہر کیا جائے، اور آپ ﷺ کی شریعت کو باقی رکھا جائے۔ آخرت میں اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ﷺ ثواب میں اضافہ کیا جائے، آپ کی امت کے لیے شفاعت کی اجازت دی جائے، اور مقام محمود پر آپ کی فضیلت کو ظاہر کیا جائے۔ اس کی تفصیل "فتح الباری" از امام ابن حجر العسقلانی میں موجود ہے (جلد 11، صفحہ 156، دار المعرفة)۔
سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجنا ان اعلیٰ ترین عبادات میں سے ہے جن کے ذریعے بندہ اپنے خالق کا قرب حاصل کرتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا: ﴿إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا﴾ "بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو" (الأحزاب: 56)۔
امام بیضاوی نے اپنی تفسیر میں فرمایا ہے (جلد 7، صفحہ 184، طبع الأميرية): "بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں" کا معنی ہے کہ اللہ تعالی اور اس کے فرشتے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرف کا اظہار کرنے اور آپ کے مقام کو بلند کرنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ "اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجا کرو" یعنی تم بھی اس کا اہتمام کرو؛ کیونکہ تم اس کے زیادہ مستحق ہو۔
اسی طرح سنت مبارکہ میں بھی درود شریف کی ترغیب دی گئی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے، اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے" (صحیح مسلم)۔
بھولی ہوئی چیز یاد کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود پڑھنے کا حکم اور اس کے دلائل:
جہاں تک بھول جانے پر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کا تعلق ہے، علماء نے تصریح کی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کا استحباب کچھ مواقع پر زیادہ مؤکد ہوتا ہے، جن میں سے ایک موقع یہ ہے کہ جب انسان کوئی چیز بھول جاۓ۔
علامہ ابن عابدین نے "رد المحتار" (جلد 1، صفحہ 518، طبع دار الفكر) میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کے استحباب کے بارے میں فرمایا: "[(اور یہ ہر وقت مستحب ہے جب بھی ممکن ہو)] یعنی جب کوئی رکاوٹ نہ ہو۔ علماء نے مختلف مواقع پر درود بھیجنے کے استحباب کی تصریح کی ہے... ان مواقع میں ہفتہ، اتوار، جمعرات کے دن... اور بھول جانے کے وقت بھی شامل ہیں۔
امام ابن حجر نے "فتح الباری" (جلد 11، صفحہ 169، طبع دار المعرفة) میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کے مؤکد مواقع کی فہرست دیتے ہوئے کہا ہے: "[ان مواقع میں سے جن میں درود بھیجنے کی تاکید کی گئی ہے اور جن کے بارے میں خاص احادیث آئی ہیں، جن میں سے زیادہ تر کی سندیں بھی معتبر ہیں، یہ مواقع بھی ہیں: مؤذن کے جواب کے بعد، دعا کی ابتدا میں، اور جب کوئی چیز بھول جائے۔]"
اسی طرح علامہ قسطلانی نے "المواهب اللدنية" (جلد 2، صفحات 668-672، طبع المكتبة التوفيقية) میں بھی ان مواقع کا ذکر کیا ہے جہاں درود شریف مشروع ہے، اور ان میں "بھول جانے کے وقت" کو بھی شامل کیا ہے۔
ابن قیم نے "جلاء الأفهام" (جلد 1، صفحہ 429، طبع دار العروبة) میں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے کے مواقع کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے: "درود بھیجنے کا بتیسواں موقع یہ ہے کہ جب کوئی چیز بھول جائے یا یاد کرنا چاہے۔"
حسین اللاعی مغربی نے "البدر التمام شرح بلوغ المرام" (جلد 10، صفحات 394-409، طبع دار ہجر) میں فرمایا: "[نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا مخصوص حالات میں مشروع ہے، جن میں سے ایک موقع یہ ہے کہ جب کوئی چیز بھول جائے یا کسی چیز کے بھول جانے کا خوف ہو۔]
اس بات کی تائید اس روایت سے بھی ہوتی ہے جو حضرت عثمان بن ابی حرب باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص کوئی بات کہنی چاہے اور بھول جائے، تو اسے چاہیے کہ مجھ پر درود بھیجے؛ کیونکہ اس کا مجھ پر درود بھیجنا اس کی بھولی ہوئی بات کا بدل ہوگا، اور امید ہے کہ وہ اسے یاد آجائے۔" اس حدیث کو ابن السنی نے "عمل اليوم والليلة" میں روایت کیا ہے۔
اس مسئلے پر حضرت اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ کی روایت سے بھی استدلال کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا: " اے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم! میں آپ پر بہت زیادہ درود بھیجنا چاہتا ہوں؛ لہذا میں اپنی دعا میں کتنا وقت آپ پر درود بھیجنے کے لیے خاص کروں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تم جتنا چاہو خاص کرو، میں نے عرض کیا: کیا میں دعا کا چوتھائی وقت درود شریف پڑھنے کے لیے خاص کروں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جتنا چاہو، کرو اور اگر تم زیادہ کروگے، تو وہ تمہارے لیے بہتر ہوگا۔ میں نے کہا: کیا میں دعا کا آدھا وقت درود شریف پڑھنے کے لیے خاص کروں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جتنا چاہو، کرو اور اگر تم زیادہ کروگے، تو وہ تمہارے لیے بہتر ہوگا۔ میں نے کہا: کیا میں دعا کا دو تہائی وقت درود شریف پڑھنے کے لیے خاص کروں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جتنا چاہو، کرو اور اگر تم زیادہ کروگے، تو وہ تمہارے لیے بہتر ہوگا، میں نے کہا: میں پوری دعا کا وقت آپ پر درود بھیجنے کے لیے خاص کروں گا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تب تو تمہارے تمام ہموم وافکار کی کفایت کی جائے گی (یعنی الله تعالیٰ تمہارے تمام ہموم وافکار کو دور کریں گے) اور تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔اس حدیث کو امام ترمذی نے اپنی "جامع" میں روایت کیا ہے۔
یہ حدیث ظاہر کرتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا ہموم وافکار کے حل کا ایک سبب ہے، اور اس میں ہر قسم کے ہموم وافکار کا حل شامل ہے، جیسے کہ بھول جانے کا ہموم ۔ ملا علی القاری نے "مرقاة المفاتيح" (جلد 2، صفحہ 746، طبع دار الفكر) میں بیان کیا ہے: "ھم" وہ ہے جس کا انسان دنیا اور آخرت کے امور میں قصد کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ اپنے تمام وقت کو درود پڑھنے میں صرف کریں، تو آپ کی دنیا اور آخرت کی تمام پریشانیاں دور ہو جائیں گی۔ یعنی، آپ کو دنیا اور آخرت کی تمام مرادیں مل جائیں گی۔ لہذا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنے میں مشغول ہونا آپ کی ضروریات اور مسائل کے حل کے لیے کافی ہے۔
خلاصہ:
اس تمام بحث کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ بھول جانے کی صورت میں سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجنا مستحب اور مطلوب ہے، اور اسی طرح ہر وقت اور ہر حال میں درود بھیجنا مستحب ہے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.