منشیات کی تجارت

Egypt's Dar Al-Ifta

منشیات کی تجارت

Question

منشیات کی تجارت کا کیا حکم ہے اور یہ  فعل کتنا خطرناک ہے؟

Answer

علماء کرام نے ہر اس چیز کو حرام قرار دیا ہے جو نشہ آور ہو اور مختلف درجات تک شعور کو نقصان پہنچانے کا سبب بنتی ہو حتی کہ اس کے حرام ہونے پر امام بدر عینی رحمہ اللہ نے "البنایہ" (12/370) میں اجماع نقل کیا ہے فرماتے ہیں: [چرس مہلک نہیں ہے، لیکن نشہ آور، فتور آور اور سستی کا باعث ہے، اور اس میں کئی مذموم اوصاف پاۓ جاتے ہیں؛ اس کے حرام ہونے پر بھی متاخرین علماء رحمہم اللہ کا اجماع ہے۔

جس طرح منشیات کا استعمال حرام ہے اسی طرح منشیات کی تجارت بھی حرام ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی چیز کو حرام کرتا ہے تو اسے بیچنے اور اس کی قیمت کھانے سے منع فرماتا ہے؛ کیونکہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور جب اللہ کسی چیز کو حرام کرتا ہے تو اس کی قیمت بھی حرام کر دیتا ہے۔ اسے امام ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ فقہی مذاہب میں فقہاء عظام کے ہاں یہ بات مسلم ہے کہ "ہر وہ چیز جو حرام کی طرف لے جائے وہ بھی حرام ہے۔" مصری قانون سازوں نے منشیات کی اسمگلنگ کو جرم قرار دیا ہے۔ 1960ء کے نارکوٹک ڈرگ قانون نمبر 182 کے آرٹیکل (2) میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ: [کسی بھی شخص کے لیے نشہ آور اشیاء کو لانا، برآمد کرنا، پیدا کرنا، اپنے پاس رکھنا، خریدنا یا فروخت کرنا، یا ان کا تبادلہ کرنا، یا کسی بھی حیثیت میں تقسیم کرنا، یا اس معاملے میں ثالث کی حیثیت سے مداخلت کرنا سب منع ہے، سوائے ان احوال اور شروط کے جو اس قانون کے تحت بیان کر دیے گئے ہیں۔]

اس کے مطابق منشیات کی تجارت کرنا اور انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ لانا شریعت کی رو سے حرام ہے۔ کیونکہ منشیات کی حرمت ان تمام اسباب کی بھی حرمت کا تقاضا کرتی ہے جو ان کی گردش کا باعث بنتے ہیں۔

Share this:

Related Fatwas