نیلِ مصر کی دوسرے دریاؤں پر مضیلت
Question
کیا مصر کے دریاۓ نیل کے بارے میں یہ روایت ہے کہ اسے دیگر دریاؤں پر فضیلت حاصل ہے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛
شرعی مفہوم میں تفضیل کا تصور
اللہ تعالیٰ کی حکمت اور ارادہ ہے کہ وہ اپنی مخلوقات میں جسے چاہے اور جیسے چاہے، فضیلت عطا فرمائے۔ انسانوں میں سے: اللہ نے انبیاء، رسل اور اولیاء کو باقی مخلوقات پر فضیلت دی۔ شہروں میں: مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کو دیگر تمام شہروں پر فضیلت حاصل ہے، جیسا کہ ان دونوں کے درمیان موجود فضیلت کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے نصوص میں ذکر کیا گیا ہے۔مہینوں میں: رمضان المبارک کو باقی مہینوں پر فضیلت عطا کی۔ راتوں میں: لیلۃ القدر کو تمام راتوں سے افضل قرار دیا۔ دنوں میں: عرفہ کے دن کو تمام ایام پر فوقیت دی۔ پہاڑوں میں: اللہ نے جبلِ طور کو اپنی تجلی کے سبب اور جبلِ اُحد کو رسول اللہ ﷺ کے اس قول کے سبب فضیلت بخشی: "یہ وہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں" (متفق علیہ)۔ اور دریاؤں میں: اللہ تعالیٰ نے دریاۓ نیل کو فضیلت عطا کی ہے۔
اور یہ ایک تاریخی دریا ہے جو شمال مشرقی افریقہ میں بہتا ہے، جس سے بہت سی قوموں نے اپنی تہذیبیں اور ترقی حاصل کی ہے ان میں مصری تہذیب بھی شامل ہے۔ دریاۓ نیل مصر کی دولت اور خوشحالی کا سب سے بڑا ذریعہ شمار ہوتا ہے۔ جیسا کہ محمد عوض کی کتاب **"نہر النیل"** (صفحہ: 3، طبع: لجنة التأليف والترجمة والنشر) میں بیان کیا گیا ہے۔
دریاۓ نیل کی افضیلت
دریاۓ نیل کی دیگر دریاؤں پر فضیلت کو کئی امور سے جانا جا سکتا ہے، جن میں سے چند اہم نکات یہ ہیں:
- یہ وہ دریا ہے جسے قرآن کریم میں کئی مقامات پر ذکر کیے جانے کا شرف حاصل ہے۔ ان مقامات میں بعض میں اس کا صریح اور واضح ذکر ہے، جبکہ بعض میں اس کی طرف اشارہ اور تلمیح موجود ہے۔
دریاۓ نیل کا قرآن کریم میں صریحاً ذکر: دریاۓ نیل کو قرآن کریم میں "الیم" کے نام سے چھ مرتبہ ذکر کیا گیا ہے، جو ایک عبرانی لفظ ہے اور اس سے مراد دریاۓ نیل ہے۔ جس سے اس کی فضیلت اور اہمیت کو اجاگر کیا گیا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے، جس کے ذریعے اللہ نے اپنے برگزیدہ بندوں کی نجات کا سامان کیا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کہانی میں دریاۓ نیل کا اہم کردار ہے، جب حضرت موسیٰ کی والدہ نے اللہ کے حکم سے اپنے بیٹے کو بچانے کے لیے اسے دریا میں بہا دیا، اور یہ دریا ہی تھا جس نے حضرت موسیٰ کو محفوظ طریقے سے فرعون کے محل تک پہنچا دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: جب ہم نے تیری ماں کے دل میں بات ڈال دی تھی۔کہ اسے صندوق میں ڈال دے پھر اسے دریا میں ڈال دے پھر دریا اسے کنارے پر ڈال دے گا اسے میرا دشمن اور اس کا دشمن اٹھا لے گا، اور میں نے تجھ پر اپنی طرف سے محبت ڈال دی، اور تاکہ تو میرے سامنے پرورش پائے۔" (طٰہ: 38-39)۔ ایک اور مقام پر اللہ فرماتا ہے: اور ہم نے موسٰی کی ماں کو حکم بھیجا کہ اسے دودھ پلا، پھر جب تجھے اس کا خوف ہو تو اسے دریا میں ڈال دے اور کچھ خوف اور غم نہ کر، بے شک ہم اسے تیرے پاس واپس پہنچا دیں گے اور ہم اسے رسولوں میں سے بنانے والے ہیں۔ " (القصص: 7)۔
علامہ الطاہر ابن عاشور نے اپنی تفسیر "التحریر والتنویر" (جلد 9، صفحہ 75، طبع: الدار التونسية) میں فرمایا ہے: "قرآن مجید میں لفظ 'الیم' کو دریاۓ نیل کے لیے استعمال کیا گیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں ہے: ﴿أَنِ اقْذِفِيهِ فِي التَّابُوتِ فَاقْذِفِيهِ فِي الْيَمِّ﴾ [اسے صندوق میں رکھو اور اسے دریا میں ڈال دو]، اور اسی طرح اس آیت میں: ﴿فَإِذَا خِفْتِ عَلَيْهِ فَأَلْقِيهِ فِي الْيَمِّ﴾ [جب تمہیں اس پر خوف ہو تو اسے دریا میں ڈال دو]"۔
اور جہاں تک دریاۓ نیل کے قرآن میں اشارۃً اور تلمیحاً ذکر کا تعلق ہے، تو اس میں ایک اہم اشارہ یہ ہے کہ دریاۓ نیل اللہ تعالیٰ کی قدرتِ کاملہ اور اس کی تخلیق کے اعجاز کا ثبوت ہے۔ دریاۓ نیل کی ایک حیرت انگیز فزیکل خصوصیت یہ ہے کہ اس کا میٹھا پانی سمندر کے نمکین پانی سے ملتا ہے لیکن دونوں پانی آپس میں مدغم نہیں ہوتے، اور نیل کا پانی نمکین پانی میں بہتے ہوئے بھی میٹھا رہتا ہے۔ اس قدرتی مظہر کی وضاحت صرف اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی تخلیق کے کمال سے ہی ممکن ہے۔ یہ مظہر مصر کے دمیاط ضلع کی "رأس البر" نامی جگہ پر موجود ہے، جہاں دریاۓ نیل کی ایک شاخ بحیرہ روم میں جا ملتی ہے، اور اس منظر کو دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے اس قول کی تصدیق ہوتی ہے: ''اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا دیا، یہ میٹھا اور خوشگوار ہے اور وہ نمکین اور کڑوا ہے، اور ان کے درمیان ایک پردہ اور مضبوط رکاوٹ بنائی" (الفرقان: 53)۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:'' بھلا زمین کو ٹھہرنے کی جگہ کس نے بنایا اور اس میں ندیاں جاری کیں اور زمین کے لنگر بنائے اور دو سمندروں میں پردہ رکھا، کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے، بلکہ اکثر ان میں بے سمجھ ہیں۔ " (النمل: 61)۔اور ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: '' اس نے دو سمندروں کو بہایا، جو آپس میں ملتے ہیں۔ ان کے درمیان ایک پردہ ہے، جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے''۔ (الرحمن: 19-20)۔
اس حوالے سے امام بیضاوی نے اپنی تفسیر "أنوار التنزيل وأسرار التأويل" (جلد 4، صفحہ 128، طبع: دار إحياء التراث العربي) میں فرمایا: "کہا گیا ہے کہ میٹھے سمندر سے مراد نیل جیسا بڑا دریا ہے، اور نمکین سمندر سے مراد بڑا سمندر ہے، اور برزخ سے مراد وہ زمین ہے جو ان کے درمیان حائل ہوتی ہے، تو یہاں قدرت کا اظہار اس بات میں ہے کہ دونوں پانی مختلف صفات کی وجہ سے جدا رہتے ہیں، حالانکہ قدرتی طور پر دونوں عناصر کے اجزاء کا آپس میں مل جانا اور ایک دوسرے سے مشابہ ہونا لازم تھا"۔
علامہ نیشاپوری نے اپنی تفسیر **"غرائب القرآن ورغائب الفرقان"** (جلد 5، صفحہ 250، طبع: دار الكتب العلمية) میں فرمایا: "شاید میٹھے سمندر سے مراد بڑے دریا ہیں جیسے نیل، فرات اور جیحون، اور نمکین سمندر سے مراد مشہور سمندر ہیں، اور ان کے درمیان برزخ سے مراد وہ زمین ہے جو ان کے بیچ حائل ہوتی ہے۔ اس پہلو سے استدلال یوں کیا جا سکتا ہے کہ اگر میٹھا ہونا اور نمکین ہونا زمین یا پانی کی طبیعت کے سبب ہوتا تو دونوں میں یکسانیت ہوتی، اور اگر ایسا نہیں تو پھر لازمی طور پر ایک قادرِ مختار ذات ہے جو ہر ایک پانی کو مخصوص صفت سے نوازتی ہے۔
امام رازی نے اپنی تفسیر "مفاتیح الغیب" (جلد 29، صفحہ 351، طبع: دار إحياء التراث العربي) میں فرمایا: ﴿مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ﴾ کا مطلب ہے: اللہ تعالیٰ نے دونوں سمندروں کو ایک دوسرے میں بہنے دیا، حالانکہ ان کا خاصہ تو ہے کہ جب وہ بہیں تو وہ آپس میں مل جائیں، لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کی فطرت کے مطابق ملنے سے روک دیا۔
نیل کی فضیلت کے حوالے سے ایک اور اہم اشارہ یہ ہے کہ دریاۓ نیل کو اللہ تعالیٰ نے مصر کے باشندوں کیلئے ایک عظیم نعمت بنایا ہے، یہاں تک کہ ان کا نيل سے نکلنا اور اس سے مفارقت کرنا اللہ تعالیٰ کی طرف سے عذاب شمار کیا جائے گا۔ اس میں اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کی حمد کرنے کی ترغیب ہے، جو اس نے مصر پر دریائے نيل کے ذریعے کی ہے۔
شیخ ابو زہرہ نے اپنی تفسیر "زهرة التفاسير" (جلد 10، صفحہ 5360، طبع: دار الفكر العربي) میں :[ فأخرجناهم من جنات وعيون وكنوز ومقام كريم] میں فرمایا"جَنات وعيون میں دریائے نيل کی طرف اشارہ ہے؛ جو زمین کے بلند حصے سے نیچے کی طرف بہتا ہے؛ اور پہلے مصر اور لیبیا کے درمیان کنویں تھے، اس زمین میں چشموں کا پانی بہتا تھا؛ جو اسے زرخیز بناتے تھے؛ اور مصر اور تیونس کے درمیان واقع زمین، جسے قدیم زمانے میں "افریقہ" کہا جاتا تھا، اپنے اندر معدنیات، دھاتوں اور پرانے زمانے کے خزانوں، خاص طور پر فرعونوں کے چھوڑے ہوئے خزانوں سے بھری ہوئی تھی۔
اور یہ وہ منفرد دریا ہے جس کی فضیلت میں صحابہ اور تابعین کی بکثرت نصوص اور آثار موجود ہیں، اور جن میں سے کچھ درجِ ذیل ہیں:
جناب یزید بن ابی حبیب سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے کعب الاحبار رضي الله عنه سے سوال کیا: "کیا آپ کو دریائے نیل کا کوئی ذکر کتاب اللہ میں ملتا ہے؟" انہوں نے جواب دیا: "جی ہاں، اس ذات کی قسم جس نے حضرت موسیٰ کے لیے دریا کو پھاڑ دیا، میں کتاب اللہ میں یہ پاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر سال اس کو دو بار وحی کرتا ہے۔ اس کے بہنے کے وقت اللہ تعالی اسے فرماتا ہے: اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ بہ، تو وہ بہتا ہے جتنا الہ تعالی چاہتا ہے، پھر اس کے بعد اللہ اسے وحی کرتا ہے: ''اے نیل،اتر جا تو قابلِ تعریف ہے"۔ یہ روایت علامہ ابن عبد الحکم نے اپنی کتاب **"فتوح مصر"** (صفحہ 177، طبع: مكتبة الثقافة الدينية)، علامہ الاصبہانی نے اپنی کتاب **"الطيوريات"** (جلد 3، صفحات 1098-1099، طبع: مكتبة أضواء السلف)، علامہ جمال الدين بن تغری بردی نے اپنی کتاب **"النجوم الزاهرة"** (جلد 1، صفحہ 33، طبع: دار الكتب المصرية)، اور امام سيوطي نے اپنی کتاب **"حسن المحاضرة"** (جلد 2، صفحات 341-342، طبع: الحلبي) میں ذکر کیا ہے ، اور یہاں لفظ "یا نیل عُدْ حمیدًا" (اے نیل، واپس آ جا تو قابلِ تعریف ہے) مذکور ہے۔
سیدنا عبد الله بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: "جب اللہ عز وجل نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو انہیں دنیا کی مثال دکھائی؛ مشرق و مغرب، میدان اور پہاڑ، دریا اور سمندر، تعمیرات اور ویرانی، اور اس میں رہنے والی قومیں، اور ان پر حکومت کرنے والے بادشاہ۔ جب انہوں نے مصر کو دیکھا تو انہیں یہ ایک ہموار زمین نظر آئی، جو ایک بہتا ہوا دریا رکھتی ہے، جس کا مادہ جنت سے آیا ہے، یہ بابرکت بہتی ہے اور رحمت والا ہے۔ انہوں نے ایک پہاڑ بھی دیکھا جو نور سے ڈھکا ہوا ہے، جو اللہ کی نظرِ رحمت سے کبھی خالی نہیں ہوتا۔ اس کے دامن میں پھلدار درخت ہیں، جن کی شاخیں جنت میں ہیں، اور یہ رحمت والے پانی سے سیراب ہوتے ہیں۔ حضرت آدم علیہ السلام نے نیل کیلئے برکت کی دعا کی، اور زمین مصر کے لیے رحمت، نیکی اور تقویٰ کی دعا کی، اور اس کے نیل اور پہاڑ کیلئے سات بار برکت کی دعا کی، فرمایا: "اے رحمت والے پہاڑ، تیرا دامن جنت ہے، اور تیری زمین مشک ہے، جہاں جنت کے پودے دفن کیے جائیں گے۔ تو ایک حفاظت کرنے والی، مطیع، اور رحیم زمین ہے۔ اے مصر! تجھ میں کبھی بھی برکت کا فقدان نہ ہوگا، اور تو ہمیشہ حفاظت میں رہے گی، اور تجھ سے ہمیشہ سلطنت اور عزت ملے گی۔ اے زمین مصر! تجھ میں خزانے اور کنوز ہیں، اور تجھ میں نیکی اور ثروت ہے۔ تیرا دریا شہد کی طرح بہتا ہے، اللہ تجھے بکثرت فصل عطا فرمائے، اور تیرا دودھ بڑھتا رہے، اور تیرے پودے پھلتے پھولتے رہیں، اور تیری برکت اور زرخیزی عظیم ہو ۔ تجھ میں بھلائی ہمیشہ رہے گی جب تک تو تکبر نہ کرے اور خیانت نہ کرے، اور اگر تو نے ایسا کیا تو تجھ پر برائی آئے گی، پھر تجھ میں خیر دوبارہ آئے گی"۔ حضرت آدم علیہ السلام وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے زمین مصر کے لیے رحمت، خوشحالی، برکت اور شفقت کی دعا کی ۔ اس روایت کو علامہ مؤرخ ابن زولاق نے اپنی کتاب **"فضائل مصر وأخبارها" (صفحہ 9-10، طبع: مكتبة الخانجي)، علامہ الشهاب النويری نے اپنی کتاب ''نهاية الأرب" (جلد 1، صفحہ 347، طبع: دار الكتب المصرية)، علامہ مؤرخ المقریزی نے اپنی کتاب "المواعظ والاعتبار"** (جلد 1، صفحہ 50، طبع: دار الكتب العلمية)، علامہ ابن ظهیرہ نے اپنی کتاب "الفضائل الباهرة في محاسن مصر والقاهرة" (صفحة 78، طبع: دار الكتب - مصر)، حافظ سيوطي نے اپنی کتاب "حسن المحاضرة" (جلد 1، صفحہ 20)، اور مؤرخ ابن تغری بردی نے اپنی کتاب "النجوم الزاهرة" (جلد 1، صفحہ 30) میں ذکر کیا ہے۔
سیدنا عبد الله بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے یہ بھی مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: " دریائے نیل تمام دریاوں کا سردار ہے، اور اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مشرق سے مغرب تک ہر دریا کو مسخر کر دیا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ دریائے نیل بہے تو وہ ہر دریا کو حکم دیتا ہے کہ اس کی مدد کریں، اور وہ دریا اپنے پانی سے اس کی مدد کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس کے لیے زمین میں چشمے پھوٹنے کا حکم دیتا ہے، اور جب اس کی روانی اس مقام تک پہنچ جاتی ہے جہاں تک اللہ عز وجل چاہتا ہے، تو اللہ ہر پانی کو حکم دیتا ہے کہ اپنے عنصر کی طرف واپس لوٹ جا"۔ یہ روایت مؤرخ ابن تغری بردی کی کتاب "النجوم الزاهرة" (جلد 1، صفحہ 34) میں موجود ہے۔
یہ اقوال اور دیگر بہت سی نصوص جو یہاں ذکر نہیں کی جا سکیں، یہ ثابت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس امانت دار ملک (مصر) کو ایسی خصوصیات عطا کی ہیں جو کسی اور ملک کو نہیں دی گئیں، اور اسی طرح اللہ تعالیٰ نے نیل (دریائے نیل) کو بھی ایسی خصوصیات اور امتیازات سے نوازا ہے جو دیگر دریاوں میں نہیں پائی جاتیں۔
مزید برآں جس بات سے جو نيل کی فضیلت کو جاننے میں مدد ملتی ہے وہ یہ کہ اس کا کچھ دوسرے دریاؤں جیسے نهر الفرات، اور نہر سَيْحَانَ اور جَيْحَانَ کے ساتھ بہت سی فضائل اور خصوصیات میں خاص ہونا ہے
صحیحین میں قصة الإسراء والمعراج میں مذکور ہے کہ نبی ا کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتایا کہ انہوں نے چار نہریں دیکھیں ، ان کے منبع سے دو ظاہری نہریں نکلتی ہیں اور دو پوشیدہ نہریں ۔ ’’میں نے کہا : اے جبریل ! یہ نہریں کیا ہیں؟ انہوں نے کہا: جو دو پوشیدہ ہیں تو وہ جنت کی نہریں ہیں اور دو ظاہری نہریں نیل اور فرات ہیں۔ اسی طرح، ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "سیحان، جیحان، فرات اور نیل سب جنت کے دریا ہیں"۔ یہ حدیث مسلم میں موجود ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ "یہ دریا سدرة المنتهی کے اصل سے نکلتے ہیں"، جیسا کہ امام نووی نے اپنی کتاب "شرح مسلم" (جلد 2، صفحہ 224) میں بیان کیا ہے۔
مذکورہ تمام دریا اس بات میں مشترک ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی برکتوں کو جنت سے وابستہ کیا ہے، اس لئے جہاں یہ دریا بہتے ہیں ان علاقوں میں خیر و برکت اور ایمان کا نازل ہونا لازمی ہے۔ بلکہ ان دریاؤں کا پانی پینے یا ان سے غذا حاصل کرنے والے ہر شخص پر بھی یہ برکتیں نازل ہوتی ہیں۔ امام نووی نے اپنی کتاب "المنهاج شرح صحیح مسلم بن الحجاج" (جلد 17، صفحہ 177) میں فرمایا ہے: "نیل مصر میں، فرات عراق میں، سیحان، اور جیحان – انہیں سیحون اور جیحون بھی کہا جاتا ہے- خراسان کے ممالک میں"۔
ان دریاوں کے جنتی پانی ہونے کے بارے میں دو تفسیریں ہیں، جیسا کہ قاضی عیاض نے ذکر کیا ہے۔ پہلی یہ کہ ان دریاوں کا پانی پینے والی زمینیں یا ان کے ذریعے غذا حاصل کرنے والے جسم ایمان کی حالت میں جنت کی طرف بڑھتے ہیں۔ دوسری اور صحیح تفسیر یہ ہے کہ نص اپنے ظاہری معنی پر ہے اور ان کا مادہ جنت سے ہے۔
علماء اور آئمہ نے واضح کیا ہے کہ دریائے نیل ایسی خصوصیات سے مالا مال ہے جو اسے دیگر دریاوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ اگرچہ کچھ دیگر دریا بھی اس کی کچھ خصوصیات میں شریک ہیں، لیکن دریائے نیل کی خصوصیات مجموعی طور پر ان سے زیادہ ہیں۔
کچھ دریا ایسے ہیں جو نیل کے ساتھ اس بات میں شریک ہیں کہ وہ دنیا کے بڑے دریاوں میں شمار ہوتے ہیں، جیسے دجلہ اور فرات۔ ابن بطوطہ کی کتاب "رحلة ابن بطوطة" (جلد 1، صفحہ 208) میں ذکر کیا گیا ہے: نیل دنیا کے پانچ بڑے دریاوں میں سے ایک ہے، جن میں نیل، فرات، دجلہ، سیحون، اور جیحون شامل ہیں۔
نیل کی خصوصیات میں ایک خاص بات یہ ہے کہ اس کا جریانی راستہ اکثر دریاوں سے مختلف ہے۔ علامہ تقی الدین المقریزی نے اپنی کتاب "المواعظ والاعتبار بذكر الخطط والآثار" (جلد 1، صفحہ 120) میں ذکر کیا ہے: نیل مصر کا جریانی طریقہ دیگر دریاوں سے مختلف ہے، کیونکہ یہ دریا جنوب سے شمال کی جانب بہتا ہے، جبکہ زیادہ تر دریا شمال سے جنوب کی طرف بہتے ہیں۔ نیل کی طرح دو اور دریا بھی ہیں جو اسی طرح بہتے ہیں: ایک نہر مکران ہے جو سندھ میں ہے، اور دوسرا نہر الأريط ہے، جو آج کل نہر العاصی کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ شام کے شہر حماہ کے علاقے میں واقع ہے"۔
نیل کی ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ بلا کسی محنت یا دشواری کے آبپاشی کے لئے پانی فراہم کرتا ہے۔ امام ابن الجوزی نے اپنی کتاب "المنتظم في تاريخ الملوك والأمم" (جلد 1، صفحہ 159) میں فرمایا ہے۔
علماء اور مؤرخین نے نہر نیل کی چند ایسی خصوصیات کا ذکر کیا ہے جو اسے دیگر دریاؤں سے ممتاز کرتی ہیں۔ ان خصوصیات میں سے کچھ درج ذیل ہیں: علماء اور مورخین نے نہر نیل کی ایسی خصوصیات کو گنایا ہے جن کی بنا پر یہ دیگر نھروں سے ممتاز ہے۔ انہوں نے اس کی کئی صفات کا ذکر کیا ہے، جیسے اس کی خفت اور لطافت۔ اور یہ کہ یہ دنیا کے سب سے لمبی دریاؤں میں سے ایک ہے، جو اپنے آغاز سے لے کر اختتام تک دوری میں سب سے زیادہ فاصلہ طے کرتا ہے۔ یہ کہ یہ پتھروں اور ریت کے اوپر بہتا ہے اور اس میں نہ تو کیڑے اور نہ ہی کائی پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی خصوصیات ہیں جو علماء نے بیان کی ہیں۔ ان خصوصیات کی وجہ سے کچھ علماء نے یہ تصریح کی ہے کہ دریائے نیل دیگر دریاؤں اور سمندروں کا سردار ہے۔
امام ابن کثیر نے اپنی کتاب "البداية والنهاية" میں فرمایا : نيل وہ دریا ہے جس کا دنیا کے دوسرے دریاوں میں کوئی ہم پلہ نہیں ہے، یہ اپنی لطافت کے ساتھ ساتھ اپنی طویل مسافت کی بنا پر منفرد ہے، جو اس کی ابتداء سے لے کر انتہا تک کی پیمائش ہے۔ ابن سینا نے اس کے بارے میں کہا کہ نيل کے کچھ خاصیات ہیں جو دوسری زمینوں کے پانیوں سے مختلف ہیں؛ مثلاً یہ کہ یہ اپنی مقدار میں سب سے زیادہ طویل دریا ہے۔ مزید برآں، یہ پتھروں اور ریتوں پر بہتا ہے اور اس میں نہ تو کیڑے اور نہ ہی کائی پایا جاتا ہے ۔ اس میں نہ تو کوئی پتھر سبز ہوتا ہے اور نہ کوئی کنکر؛ اور یہ سب اس کی صحت، میٹھے پن، اور لطافت کی وجہ سے ہے۔ ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ نيل کی مقدار دیگر دریاوں کے کم ہونے کے ایام میں بڑھ جاتی ہے، جبکہ اس کی مقدار ان کے بڑھنے کے ایام میں کم ہو جاتی ہے۔"
امام بدر الدین العینی نے اپنی کتاب "عمدة القاري شرح صحيح البخاري" میں فرمایا: نيل مصر وہ پہلا چشمہ ہے جو حبشہ کی سرزمین پر ویرانے اور سنسان راستوں کے درمیان بہتا ہے۔ ابن اثیر نے کہا: دنیا میں کوئی دریا نيل سے طویل نہیں ہے؛ کیونکہ یہ سرزمینِ اسلام میں دو مہینے، نوبہ کے علاقے میں دو مہینے، اور ویرانے میں چار مہینے کی مسافت طے کرتا ہے۔
علامہ تقی الدین المقریزی نے اپنی کتاب "المواعظ والاعتبار بذكر الخطط والآثار" میں فرمایا: ابن عبد الحكم نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا: 'نيل مصر دریاؤں کا سردار ہے، اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے مشرق و مغرب کے درمیان ہر دریا کو مسخر کیا ہے۔ جب اللہ چاہتا ہے کہ نيل مصر جاری ہو تو وہ ہر دریا کو حکم دیتا ہے کہ اسے مدد فراہم کریں، تو وہ اس کی مدد کرتے ہیں۔ اللہ نے زمین میں اس کے لیے چشمے جاری کیے ہیں؛ تاکہ یہ اپنی منزل مقصود تک پہنچے، اور جب اس کی روانی ختم ہونے کا وقت آتا ہے تو اللہ ہر پانی کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنے عنصر کی طرف لوٹ جائے۔۔ اور المسعودی نے کہا: 'دریائے نيل تمام دریاؤں اور سمندروں کا سردار ہے؛ کیونکہ یہ جنت سے نکلتا ہے، جیسا کہ شریعت کی خبر میں ذکر کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا: 'جب نيل کا پانی بڑھنا ہوتا ہے تو اس کے لیے دریا ، چشمے، اور کنویں خشک ہو جاتے ہیں، جب نیل کا پانی کم ہوتا ہے تو دوسرے دریاؤں کا پانی بڑھتا ہے، اور جب نیل کا پانی بڑھتا ہے تو دوسرے دریاؤں کا پانی کم ہو جاتا ہے۔ نیل کی بڑائی اور وسعت کی وجہ سے کو 'بحر' (سمندر) کا نام نہیں دیا گیا، دنیا کے کسی اور دریا سمندر نہیں کہا گیا۔
علماء نے تصریح کی ہے کہ نيل مصر اس دنیا کے عجائب میں سے ایک ہے، اور یہ بھی بعض عجائب کا حامل ہے۔ امام شهاب الدین النويری نے اپنی کتاب "نهاية الأرب في فنون الأدب" میں فرمایا: نيل مصر واقعی دنیا کی عجائب میں شامل ہے، اور روایت ہے کہ ذوالقرنین نے ایک کتاب لکھی تھی جس میں اس نے جو کچھ بھی عجائبات موجودہ میں دیکھا، ان کا ذکر کیا۔ پھر آخر میں کہا: 'یہ سب عجیب نہیں، بلکہ اصل عجب نيل مصر ہے۔
امام ابن الفقیہ الہمذانی نے اپنی کتاب "البلدان" میں فرمایا: اہل مصر نيل کو اپنی عجائبات میں سے ایک سمجھتے ہیں، کیونکہ یہ دنیا کے تمام دریاؤں سے مختلف ہے، جن کا رخ شمال کی طرف ہوتا ہے، جبکہ نيل کا راستہ جنوبی طرف ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: 'تمام پانی غائب ہو جائے گا اور اپنی جگہوں پر واپس جائے گا، سوائے نہر اردن، نيل مصر، حجرات، عرفات اور منی کے۔ ابن کلبي نے کہا: 'جب عَيُّوق (ستارہ) طلوع ہوتا ہے تو تمام پانی غائب ہو جاتا ہے اور کم ہو جاتا ہے، سوائے نيل مصر کے۔
"ابن بطوطہ کی کتاب "رحلة" میں آیا ہے: نيل کا راستہ جنوب سے شمال کی طرف ہے، جو تمام دریاؤں کے برخلاف ہے۔ اور اس کی عجائبات میں سے یہ ہے کہ اس کی زیادتی کا آغاز سخت گرمی میں ہوتا ہے جب کہ دیگر دریاؤں میں کمی آ جاتی ہے، اور اس کی کمی کا آغاز دیگر دریاؤں میں زیادتی کے وقت ہوتا ہے، دریائے سند بھی اسی طرح ہے۔"
یہ خصوصیات اور فوائد جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نيل مصر کو عطا کیے گئے ہیں، کی وجہ سے نيل مصر کا پانی تمام پانیوں میں سب سے بہتر ہے، جیسا کہ امت کے بہت سے علماء کی اس پر تصریحات ہیں۔ امام طحطاوی حنفی نے "حاشیہ الطحطاوی على مراقي الفلاح" میں فرمایا: "نيل مصر بعد از کوثر تمام پانیوں میں سب سے افضل ہے ، اور باقی تمام دریا اس کے بعد ہیں۔
امام دمیاطی شافعی نے "إعانة الطالبين" میں فرمایا: خلاصہ یہ ہے کہ تمام پانیوں میں سب سے افضل وہ پانی ہے جو نبی کریم ﷺ کی مبارک انگلیوں کے درمیان سے نکلا، اس کے بعد زمزم کا پانی ، پھر آبِ کوثر، پھر نيل مصر، اور پھر باقی دریا جیسے سیحون، جیحون، دجلہ، اور فرات کا شمار ہے۔
اس موضوع پر تاج سبکی نے یہ اشعار بھی کہے ہیں:
اور سب سے بہترین پانی وہ ہے جو نبی ﷺ کی انگلیوں کے درمیان سے نکلا ہے، اس کے بعد زمزم کا پانی، پھر آبِ کوثر ، پھر نيل مصر، اور پھر باقی دریا ہیں
خلاصہ
نيل مصر سب سے افضل دریا ہے اور اس کا شمار دنیا کی عجائبات میں ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نيل مصر کا ذکر اپنی مقدس کتاب میں کیا ہے اور اسے اپنی نشانیوں میں سے ایک نشانی قرار دیا ہے۔ اسے رحمت اور برکت سے نوازا ہے، اور اس میں ایسی خصوصیات رکھی ہیں جو اسے تمام دریاؤں کا سردار اور عظیم تر بناتی ہیں۔ اور اس کے فضائل اور خصوصیات میں بہت سی روایات اور اخبار آئی ہیں۔
والله سبحانه وتعالى أعلم۔