تعلیمِ بالغاں اور ان کی ناخواندگی خ...

Egypt's Dar Al-Ifta

تعلیمِ بالغاں اور ان کی ناخواندگی ختم کرنے کی ترغیب

Question

ایک سائل کا سوال ہے کہ بڑی عمر کے لوگوں کو تعلیم دینے اور ان کی ناخواندگی ختم کرنے کا کیا حکم ہے؟ اور یہ بھی بیان کریں کہ شریعت نے اس کی کیسے ترغیب دلائی ہے؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛

شرعی نصوص میں علم حاصل کرنے کی ترغیب اور اس کی فضیلت کا بیان۔

قرآن کی آیات، احادیث اور صریح دلائل نے علم کی فضیلت اور اس کے حصول اور تعلیم کی ترغیب پر زور دیا ہے۔  اللہ تعالیٰ نے فرمایا:﴿وَقُلْ رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا﴾ "اور کہیے: اے میرے رب! میرے علم میں اضافہ فرما" [طه: 114]، اور فرمایا:﴿إِنَّمَا يَخْشَى اللهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ﴾ "اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی لوگ ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں" [فاطر: 28]، اور فرمایا:﴿اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ ۝ خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ ۝ اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ ۝ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ ۝ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ﴾ "پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، اس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا، پڑھ اور تیرا رب بڑے کرم والا ہے، جس نے قلم کے ذریعے علم سکھایا، انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا" [العلق: 1-5]۔

اس موضوع پر احادیث کثرت سے موجود اور مشہور ہیں؛ جن میں سے ایک یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص طلب علم کے لیے راستہ طے کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اسے جنت کی راہ پر چلاتا ہے اور فرشتے طالب علم کی بخشش کی دعا کرتے ہیں یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں دعائیں کرتی ہیں، اور عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہی ہے جیسے چودھویں رات کے چاند کی تمام ستاروں پر، اور علماء انبیاء کے وارث ہیں، اور نبیوں نے اپنی وراثت میں درہم و دینار نہیں چھوڑے بلکہ علم کا وارث بنایا تو جس نے علم حاصل کیا اس نے (وراثتِ انبیاء سے) ایک وافر حصہ پا لیا“۔ اس حدیث کو ابو داود اور ترمذی نے اپنی "سنن" میں روایت کیا ہے۔

اور انہی میں سے یہ حدیث بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:  "جس شخص کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے، اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے" (متفق علیہ)۔

اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:  "علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے" (اسے ابن ماجہ نے اپنی "سنن" میں روایت کیا ہے)۔

یہ نصوص واضح طور پر علم اور تعلیم کی فضیلت، اور اہلِ علم کے اعلیٰ مقام و مرتبے کی نشاندہی کرتی ہیں۔ طلبِ علم کی کوئی معین حد نہیں، اور نہ ہی اس میں عمر کی کوئی قید ہے۔ اس میں چھوٹے اور بڑے، مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں؛ بلکہ حصولِ علم میں سب برابر ہیں۔ مشہور فرمان ہے: "علم حاصل کرو ماں کی گود سے لے کر قبر تک"۔

تعلیمِ بالغاں اور ان کی ناخواندگی کے خاتمے کا حکم، اور شریعت نے اس پر کیسے زور دیا ہے:

بڑوں کی تعلیم اور ان کی ناخواندگی کا خاتمہ شرعاً پسندیدہ اور مطلوب عمل ہے۔ ناخواندگی کا خاتمہ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اَن پڑھ افراد کو پڑھنا اور لکھنا سکھایا جائے تاکہ وہ مطلوبہ مہارت کے درجے تک پہنچ سکیں۔ بڑوں کی تعلیم کا مقصد انہیں مناسب مقدار میں تعلیم دینا ہے تاکہ ان کا ثقافتی، سماجی اور پیشہ ورانہ معیار بلند ہو سکے، وہ معاشرے میں آنے والی تبدیلیوں کا مقابلہ کر سکیں، اور انہیں مختلف تعلیمی مراحل میں آگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا جا سکے۔

بہت سے بزرگ علماء اور آئمہ نے علم حاصل کرنے کا آغاز صرف بڑی عمر میں کیا، اور انہوں نے اپنی عمر یا مقام سے شرم محسوس نہیں کی، بلکہ اس حدیث کے حکم پر عمل کیا ہے: ''دو قسم کی حرص  والے لوگ ہیں جو کبھی سیراب نہیں ہوتے: ایک علم کا طالب اور دوسرا دنیا کا طالب"۔اس حدیث کو ابن ابی شیبہ نے اپنی "مصنف" میں، دارمی نے "سنن" میں، اور بزار نے "مسند" میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے۔

علماء نے بہت سے مشہور آئمہ اور علماء کی مثالیں اور واقعات بیان کیے ہیں جنہوں نے بڑی عمر میں علم حاصل کرنے کا آغاز کیا۔ ان میں سے ایک مثال ابو بکر عبد اللہ بن احمد بن عبد اللہ المروزی کی ہے، جو القَفَّال کے نام سے مشہور تھے اور اپنے وقت میں شیخِ شافعیہ تھے، ان کی وفات 417 ہجری میں ہوئی۔ امام ابن قاضی شہبہ نے اپنی کتاب "طبقات الشافعية" میں ان کے بارے میں لکھا:  "امامِ جلیل ابو بکر القَفَّال الصغير، طریقہ خراسان کے شیخ تھے، انہیں 'القفَّال' اس لیے کہا گیا کیونکہ وہ اپنے ابتدائی دور میں اقفال (تالے) بنانے کا کام کرتے تھے، اور اس میں ماہر تھے، یہاں تک کہ ایک ایسا تالا بنایا جو اپنے آلات اور چابی سمیت صرف چار دانوں کے وزن کا تھا۔ جب وہ تیس برس کے ہوئے تو انہوں نے اپنے اندر ذہانت کی علامتیں محسوس کیں، چنانچہ فقہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فقیہ شیخ ابو زید اور دیگر اساتذہ سے علم حاصل کیا۔ وہ اس علم میں امامِ مقتدیٰ بن گئے اور خراسان کے بہت سے لوگوں نے ان سے فقہ حاصل کی۔ حدیث کا سماع کیا، احادیث بیان کیں اور املاء کروائیں۔ "

ان میں سے ایک اور مثال أصبغ بن الفرَج کی ہے، جو مصری دارالافتاء کے مفتی اور اپنے وقت میں مالکیہ کے بڑے علماء میں شمار ہوتے تھے۔ امام ذہبی نے اپنی کتاب "سير أعلام النبلاء" میں ان کے بارے میں لکھا: 

"شیخ امامِ کبیر، مصری علماء کے مفتی ابو عبداللہ أموی، مالکی ہیں، آپ 150 ہجری کے بعد پیدا ہوئے، اور آپ نے جوان ہو کر حصولِ شروع کیا، اس لئے آپ امام مالک اور امام لیث بن سعد سے پڑھنے کا موقع نہ پا سکے"۔

اور ان کے علاوہ بھی بہت سے علماء ہیں جنہوں نے حصولِ علم کے سفر کا آغاز بڑی عمر میں کیا تھا۔ امام سيوطي نے کچھ علماء کا قول نقل کیا ہے کہ یہ مستحب ہے کہ آدمی تیس سال کی عمر کے بعد حدیث سننے کا آغاز کرے۔ (تدريب الراوي)۔

صحیح البخاری میں " علم و حکمت میں رشک کرنا" کے باب میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے: "تفقہوا قبل أن تسودوا" (علم حاصل کرو، اس سے پہلے کہ تمہیں سردار بنا لیا جائے)۔ امام بخاری نے اس پر تعلیق لگاتے ہوئے فرمایا: "اور سردار بنائے جانے کے بعد بھی علم حاصل کرو"، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی بڑی عمر میں علم حاصل کیا تھا۔ (صحیح البخاری)۔

خلاصہ:

اس لئے، بڑوں کو تعلیم دینا اور ان کی ناخواندگی کو ختم کرنا شرعاً پسندیدہ عمل ہے؛ کیونکہ قرآنِ کریم کی بہت سی آیات کریمہ اور احادیث طیبہ علم و تعلیم کی اہمیت اور اہلِ علم کے شرف اور فضل پر دلالت کرتی ہیں۔ طلبِ علم کسی مخصوص حد یا عمر پر موقوف نہیں، اور اس کے حصول میں چھوٹے اور بڑے، مرد اور عورت کے درمیان کوئی فرق نہیں؛ بلکہ حصولِ علم میں سب برابر ہیں۔

والله سبحانه وتعالى أعلم۔

Share this:

Related Fatwas