مالی معاوضاتی جرمانے کا حکم
Question
کیا وہ مالی جرمانے جو عدالتی ادارے مقروض شخص پر قرض خواہ کے حق میں بطور معاوضہ عائد کرتے ہیں، ربا (سود) کے زمرے میں آتے ہیں؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ وہ سزائیں یا جرمانے جو عدالتی ادارے مقروض شخص پر قرض خواہ کے حق میں معاوضے کے طور پر عائد کرتے ہیں، ربا کے زمرے میں نہیں آتے، بلکہ لوگوں کے مال کی حفاظت کے لیے ہیں تاکہ طمع کرنے والے، ٹال مٹول کرنے والے، دھوکہ دینے والے، اور جھوٹ بولنے والے دوسروں کے مال ناحق نہ کھا سکیں۔
صحیح حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:''جو شخص لوگوں کا مال لیتا ہے اور اس کی واپسی کا ارادہ رکھتا ہے تو اللہ تعالی اس کی طرف سے ادا کرے گا، اور جو اسے ضائع کرنے کی نیت سے لے گا، اللہ اسے تباہ کر دے گا۔"
امام بخاری نے حضرت ابوہریرہؓ سے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"مالدار کی جانب سے جان بوجھ کر ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا اسے سزا اور بے عزتی کا حقدار بنا دیتا ہے۔"
یعنی، مالدار کا اپنے واجب الادا حقوق کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا ظلم کی ایک قسم ہے جو حاکم کو اسے قید کرنے اور سزا دینے کا اختیار دیتا ہے۔
خلاصہ:
مال اور حقوق کو ان کے حق داروں تک پہنچانا ایسی ذمہ داری ہے جس میں کسی سمجھدار انسان کو کوتاہی یا غفلت نہیں کرنی چاہیے۔ اگر کسی شخص کی ٹال مٹول ثابت ہو جائے تو حکمران پر لازم ہے کہ اس کی زیادتی اور ٹال مٹول کے مطابق اسے مناسب سزا دے۔
لیکن اگر یہ ثابت ہو جائے کہ مقروض شخص کسی غیر اختیاری وجہ سے عاجز ہے تو قرض خواہ کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرے: ﴿وَإِنْ كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ﴾
" اور اگر وہ (مقروض) تنگ دست ہو تو آسودہ حالی تک مہلت دینی چاہیے، اور بخش دینا تو تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے، اگر تم جانتے ہو۔ " (البقرہ: 280
یعنی اگر مقروض تنگ دست ہو تو اسے قرض ادا کرنے کے لیے اتنا وقت دیا جائے کہ وہ اپنی مالی حالت بہتر کر سکے۔ اور اگر قرض خواہ اپنے قرض میں سے کچھ معاف کر دے تو یہ اس کے لیے کسی بھی دوسری چیز سے زیادہ بہتر ہوگا۔ یہ بات علمِ نافع اور پختہ عقل رکھنے والے لوگ بخوبی سمجھتے ہیں۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.