جب شوہر وفات پا جائے تو مہرِ مؤجلکا حکم
Question
میرے شوہر کا انتقال ہو گیا ہے اور وارثین میں بیوی (یعنی میں)، دو بیٹیاں، تین بھائی اور دو بہنیں شامل ہیں۔ میرا مہرِ مؤجل میرے شوہر پر واجب الادا تھا۔ کیا میں ترکہ تقسیم ہونے سے پہلے اپنا مہرِ مؤجل وصول کرنے کا حق رکھتی ہوں؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ فقہی اصولوں کے مطابق ترکہ سے متعلقہ حقوق یکساں نہیں ہوتے بلکہ ان میں بعض کو بعض کے مقابلے میں قوی ہوتے ہے۔ ان کی ترتیب درج ذیل ہے:
پہلا: متوفیٰ کے ترکہ میں سے سب سے پہلے اس کی تجہیز و تکفین (غسل، کفن دفن وغیرہ) کے اخراجات پورے کیے جائیں گے۔ بغیر کسی اسراف یا بخل کے۔ ان امور کو ترجیح دینے کی وجہ یہ ہے کہ میت کے لیے ان میں تاخیر مناسب نہیں، بلکہ انہیں جلد از جلد انجام دینا واجب ہے تاکہ اس کی عزت اور وقار برقرار رہے۔
دوسرا: میت کے قرضوں کی ادائیگی، خاص طور پر وہ قرضے جو لوگوں کے حقوق سے متعلق ہوں اور جو میت کے مال پر واضح ثبوت (اقرار یا گواہی) کے ساتھ ثابت ہوں۔ ان قرضوں کو ترکہ کی تقسیم سے پہلے ادا کرنا واجب ہے تاکہ میت بریٔ الذمہ ہو جائے۔
جہاں تک میت اور اللہ تعالیٰ کے درمیان واجب الادا حقوق کا تعلق ہےجیسے زکوٰۃ اور کفارے:
تو علماءِ شافعیہ، حنابلہ، اور ابن حزم کے نزدیک یہ قرضے لوگوں کے قرضوں پر مقدم ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: "روضۃ الطالبین" از نووی (6/182) اور "المحلی" از ابن حزم (9/253)۔
جبکہ احناف کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے قرضے انسان کی موت کے ساتھ ساقط ہو جاتے ہیں اور ورثاء کو ان کی ادائیگی کا پابند نہیں کیا جائے گا، سوائے اس صورت میں کہ وہ اپنی خوشی سے ادا کریں یا میت نے اپنی زندگی میں ان کی ادائیگی کی وصیت کی ہو۔ وصیت کی صورت میں یہ اجنبی کے حق میں وصیت کی طرح ہو جائے گی اور ورثاء یا وصی، تجہیز و تکفین اور لوگوں کے قرضوں کی ادائیگی کے بعد ترکہ کے ایک تہائی حصے سے اس وصیت کو ادا کریں گے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: "المبسوط" از سرخسی (2/186)۔
قرضوں کی ادائیگی کو وصیت پر مقدم کیا گیا ہے، حالانکہ قرآنِ کریم میں ترتیبِ ذکر میں وصیت کو پہلے بیان کیا گیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ﴾ [النساء: 12]۔ یہ اس لیے ہے کہ قرضوں کی ادائیگی شرعاً واجب ہے، جبکہ وصیت نفل اور تبرع کے درجے میں آتی ہے۔ واجب کو نفل پر مقدم کرنا اولیٰ ہے۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا": تَقْرَؤونَ الْوَصِيَّةَ قَبْلَ الدَّيْنِ، وَقَضَى رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وآله وسلم أَنَّ الدَّيْنَ قَبْلَ الْوَصِيَّةِ"۔ ترجمہ: تم وصیت کو قرض سے پہلے پڑھتے ہو، جبکہ رسول اللہ ﷺ نے فیصلہ فرمایا کہ قرض وصیت سے پہلے ادا کیا جائے گا۔ اس روایت کو ترمذی نے اپنی "سنن" (4/435) اور ابن ماجہ نے (2/906) میں بیان کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا کہ جمہور اہلِ علم کا عمل اسی پر ہے۔
تیسرا: تجہیز وتکفین اور قرضوں کی ادائیگی کے بعد باقی ترکہ کے ایک تہائی حصے سے میت کی وصیتیں ادا کی جائیں گی ۔ اگر وصیت ایک تہائی سے زیادہ ہو تو اضافی حصہ ورثاء کی اجازت پر منحصر ہوگا، بشرطیکہ وصیت کسی اجنبی کے لیے ہو۔ اگر وصیت کسی وارث کے لیے ہو تو ایک تہائی سے زائد حصہ کی ادائیگی کے لیے دیگر تمام ورثاء کی اجازت ضروری ہوگی۔
چوتھا: مذکورہ تمام ضروری أمور ادا ہو جانے کے بعد باقی ترکہ کو اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ شریعت کے مطابق ورثاء میں تقسیم کیا جائے گا۔
مندرجہ بالا اصولوں کی روشنی میں: مہرِ مؤجل بیوی کا شوہر پر واجب الادا قرض ہے، جو طلاق یا وفات کی صورت میں واجب الادا ہوتا ہے: ۔ چونکہ شوہر کا انتقال ہو چکا ہے، لہٰذا ترکہ کی تقسیم سے پہلے ترکہ میں سے مکمل مہرِ مؤجل نکال کر بیوی کو ادا کیا جائے گا ۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.