نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت سے پہلے عصمت کا بیان
Question
سائل کا کہنا ہے کہ یہ معروف بات ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بعثت سے قبل اپنی قوم کے دین پر نہیں تھے اور نہ ہی کبھی کسی بت کے سامنے سجدہ ریز ہوئے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اہلِ جاہلیت کے اعمال سے محفوظ رکھا تھا۔ ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ اس بات کی وضاحت اور تشریح فرمائیں۔
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ اللہ تعالیٰ نے انسانیت پر عظیم احسان فرمایا کہ اس نے خاتم النبیین سید المرسلین سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں عظیم نعمت عطا سے نوازا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عصمت یعنی گناہوں اور کفر سے محفوظ رہنا، آپ کے لیے اور تمام انبیاء و رسل علیہم السلام کے لیے ثابت شدہ اور لازم ہے۔ یہ عقیدہ نہ صرف اسلامی شریعت کی نصوص اور قرآن و حدیث سے ثابت ہے، بلکہ امت کا اس پر اجماع ہے اور ہر دور کے علماءِ کرام اور آئمہ عظام نے بغیر کسی اختلاف کے اس کی توثیق کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا: '' تمہارے ساتھی (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نہ بھٹکے ہیں اور نہ گمراہ ہوئے ہیں" (سورۃ النجم: 2)۔
اسی طرح حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "اللہ کے ہاں میں آغاز ہی سے خاتم النبیین تھا، اور اس وقت جب آدم علیہ السلام ابھی اپنی مٹی میں تھے۔ میں تمہیں اس کی تعبیر بتاتا ہوں: میں اپنے والد ابراہیم علیہ السلام کی دعا ہوں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اپنی قوم کو دی گئی بشارت ہوں، اور اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جس میں انہوں نے دیکھا کہ ان سے ایک نور نکلا جس نے شام کے محلات کو روشن کر دیا"۔
اس حدیث کو امام احمد، امام بزار، امام طبرانی، ابن حبان اور امام حاکم نے روایت کیا ہے، اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے، اور امام ذہبی نے اپنی کتاب '' تنقيح التحقيق في أحاديث التعليق '' میں آپ کی موافقت کی ہے۔
علامہ ابن رجب حنبلی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "لطائف المعارف" (ص: 81-82، ط. دار ابن حزم) میں ذکر کیا ہے کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے یہ استدلال کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی پوری زندگی میں توحید پر قائم رہے اور کبھی شرک یا اپنی قوم کے دین پر نہیں تھے۔ اس سے آپ نے ان لوگوں کا رد کیا پئ جو اس کے برعکس گمان کرتے ہیں۔۔۔ حنبل کہتے ہیں: میں نے ابو عبد اللہ (امام احمد) سے پوچھا، "جو شخص یہ دعویٰ کرے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی بعثت سے پہلے اپنی قوم کے دین پر تھے، اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟" امام احمد نے جواب دیا: یہ بہت بُرا قول ہے۔ اس طرح کی بات کرنے والے شخص کے کلام سے بچنا چاہیے اور اس کے ساتھ نشست و گفتگو نہیں کرنی چاہیے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی کسی بت کو ہاتھ نہیں لگایا اور نہ ہی اسے چھوا
احادیث اور آثار جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے قبل کے أحوال اور خصوصیات کو بیان کرتے ہیں، اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بھی کسی بت کو ہاتھ نہیں لگایا اور نہ ہی اسے چھوا۔ بلکہ آپ ﷺ اپنے ساتھیوں کو بھی ایسے اعمال سے روکا کرتے تھے، حالانکہ اس وقت تک آپ پر وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ نے فرماتے ہیں: ''رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک بت کے پاس سے گزرے اور ہم نے اس کے لیے ایک بکری ذبح کی پھر اسے پکایا اور جب وہ پک کر تیار ہو گئی، تو ہم نے اسے اپنی دسترخوان پر رکھا اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو وہ کھانا پیش کیا جس میں گوشت تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: "یہ کیا ہے؟" ہم نے جواب دیا: "یہ بکری ہے جو ہم نے فلان بت کے لیے ذبح کی ہے۔" تو آپ نے فرمایا: "میں ایسی چیز نہیں کھاتا جو اللہ کے علاوہ کسی اور کے لیے ذبح کی گئی ہو۔" پھر ہم نے منتشر ہو گئے۔ آپ فرماتے ہیں کہ دو پیتل کے بت (کعبہ شریف میں رکھے ہوئے) تھے جنہیں اساف اور نائلہ کہا جاتا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور میں طواف کر رہے تھے۔ میں نے جب ان بتوں کو چھوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "انہیں نہ چھوؤ۔" میں نے دل میں سوچا: میں انہیں ضرور چھوؤں گا اور دیکھوں گا آپ ﷺ کیا کہتے ہیں چنانچہ میں نے انہیں پھر چھوا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: " اسے مت چھوو کیا تمہیں منع نہیں کیا گیا ؟" زید بن حارثہ نے کہا: " اللہ کی قسم جس نے آپ ﷺ کو عزت دی اور آپ ﷺ پر کتاب نازل فرمائی، آپ ﷺ نے کبھی بھی کسی بت کو ہاتھ نہیں لگایا، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو عزت دی اور آپ ﷺ پر کتاب نازل فرمائی۔" یہ حدیث نسائی نے "السنن الكبرى" میں اور ابو یعلیٰ نے "المسند" میں بیان کی ہے، اور ابو یعلیٰ نے اسے ان الفاظ کے اضافے کے ساتھ نقل کیا ہے: "انہیں نہ چھونا کیونکہ وہ ناپاک ہیں۔
حدیث میں مذکور الفاظ: ''پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طواف کیا اور میں نے بھی آپ ﷺ کے ساتھ طواف کیا''، ان میں بتوں کی عبادت کی کوئی دلالت نہیں ہے۔ اس طواف کا مقصد صرف کعبہ مشرفہ کے گرد طواف تھا، جو کہ اصل مقصد تھا۔ بتوں کے گرد چکر محض کعبہ مشرفہ میں ان کی موجودگی کی وجہ سے لگتے تھے، نہ کہ بتوں کی عبادت کے لیے ان کا طواف مطلوب تھا، یعنی طواف کعبہ شریف کا ہی کیا تھا لیکن یہ بت صحنِ کعبہ میں موجود تھے ۔ اس طواف میں بتوں کی موجودگی محض محلی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مقصد صرف کعبہ کا طواف تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی بھی بتوں کی عبادت نہیں کی اور نہ ہی ان پر ایمان رکھا۔ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بتوں سے نفرت کرتے تھے، جیسا کہ نصوص میں صراحت کے ساتھ ذکر ہے کہ آپ کو صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لات اور عزیٰ کی قسم کھانے سے سخت نفرت تھی ۔
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: "مجھے حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی اللہ عنہا کے ایک پڑوسی نے بتایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے یہ کہتے سنا: 'اے خدیجہ! واللہ، میں کبھی بھی لات کی عبادت نہیں کروں گا، اور اللہ کی قسم میں کبھی بھی عزّیٰ کی عبادت نہیں کروں گا، حضرت خدیجہ (آپ ﷺ کی تائید میں) کہتی تھیں: 'عزّیٰ کو چھوڑ دو'۔ (عروہ کہتے ہیں:) عزّیٰ ان کا وہ بت تھا جس کی سونے سے پہلے وہ عبادت کیا کرتے تھے ۔" اس حدیث کو امام احمد نے اپنی "مسند" اور "فضائل الصحابة" میں روایت کیا ہے، اور نور الدین ہیثمی نے "مجمع الزوائد" (جلد 8، صفحہ 225) میں کہا ہے: "[اس حدیث کے] رجال، رجالِ صحیح ہیں۔"
یہ روایت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی بھی طرح سے کبھی بتوں کی تعظیم نہیں کی، نہ عملی طور پر اور نہ ہی قولاً۔ آپ کی زندگی ہر لحاظ سے بتوں کی پرستش اور ان سے تعلق سے پاک تھی۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت ام ایمن نے بیان کیا: "بوانہ میں ایک بت تھا جس کی قریش تعظیم کیا کرتے تھے، اس کے لئے قربانیاں کرتے اور اس کے سامنے اپنے سر منڈواتے تھے۔ وہ اس بت کے سامنے ایک دن سے رات تک بیٹھتے اور یہ عمل سال میں ایک دن کیا جاتا تھا۔ حضرت ابو طالب بھی اپنی قوم کے ساتھ وہاں جاتے تھے، اور وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اصرار کرتے کہ آپ بھی اس تہوار میں اپنی قوم کے ساتھ شامل ہوں، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انکار کر دیا کرتے۔ یہاں تک کہ ایک دن ابو طالب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بہت زیادہ غضبناک ہو گئے اور کہا: 'ہمیں خوف ہے کہ کہیں تمہیں ہماری دیویوں سے اجتناب کرنے کی وجہ سے کوئی نقصان نہ پہنچے۔' اس دن آپ ﷺ کی پھوپھیوں نے بھی آپ ﷺ پر سخت غصہ کیا اور کہنے لگیں: 'اے محمد! ﷺ تمہارا کیا ارادہ ہے؟ تم نہ تو اپنی قوم کے تہوار میں شامل ہوتے ہو اور نہ ہی ان کے اجتماع کو بڑھاتے ہو۔ ام ایمن کہتی ہیں: وہ مسلسل آپ ﷺ پر دباؤ ڈالتے رہے، یہاں تک کہ آپ ﷺ وہاں سے چلے گئے اور کچھ دیر کے لیے ان کی نظروں سے غائب رہے، پھر جب آپ ﷺ ہمارے واپس آئے تو خوف زدہ نظر آ رہے تھے۔ آپ ﷺ کی پھوپھیوں نے پوچھا: 'تمہیں کیا ہوا؟' آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: 'مجھے خوف ہے کہ مجھ پر کوئی اثر ہو گیا ہے۔' انہوں نے کہا: 'اللہ تعالی تمہیں شیطان کے اثر سے محفوظ رکھے گا، کیونکہ تمہارے اندر خیر کی تمام صفات موجود ہیں۔ تم نے کیا دیکھا؟' آپ ﷺ نے فرمایا: 'جب بھی میں کسی بت کے قریب ہوا، میرے سامنے ایک لمبا سفید آدمی ظاہر ہوتا اور چیخ کر کہتا: "اے محمد! ﷺ پیچھے ہٹ جا، اسے مت چھو!"' پھر ام ایمن نے کہا: 'آپ ﷺ دوبارہ کبھی ان کے تہوار میں شامل نہیں ہوئے یہاں تک کہ آپ ﷺ کو نبوت عطا ہوئی۔
اس روایت کو امام ابو نعیم الاصبہانی نے "دلائل النبوة" میں ذکر کیا ہے، اور ابن سعد نے "الطبقات الكبرى" میں، ابن سید الناس نے "عيون الأثر" میں، تقی الدین المقریزی نے "إمتاع الأسماع" میں، امام ذہبی نے "السير" اور "تاريخ الإسلام" میں، امام سیوطی نے "الخصائص الكبرى" میں، اور نور الدین الحلبي نے "السيرة الحلبية" میں ذکر کیا ہے۔
یہ روایت ظاہر کرتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ مکرمہ میں بت پرستوں کے درمیان زندگی گزاری، اور فطری طور پر آپ کو ان کے ساتھ رہنا، ان کے رسوم و رواج کو دیکھنا پڑا، اور ان کے تہواروں اور عبادتوں کا مشاہدہ کرنا پڑا۔ تاہم، اس مشاہدے کا مطلب یہ تھا کہ آپ نے ان کے اعمال کو دیکھا، لیکن کبھی بھی خود ان میں شامل نہیں ہوئے، جیسا کہ امام بیہقی نے "دلائل النبوة" میں وضاحت کی ہے۔
قاضی عیاض رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "الشفا بتعريف حقوق المصطفى" (جلد 2، صفحہ 110، طبع دار الفكر) میں فرمایا: "قریش نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہر قسم کے بہتان باندھے، اور کفارِ نے اپنے انبیاء پر ہر ممکن جھوٹے الزام لگائے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے یا روایات کے ذریعے ہم تک پہنچا ہے۔ لیکن ہمیں کسی روایت میں یہ نہیں ملا کہ کسی نبی کو اس بات پر ملامت کی ہو کہ اس نے بتوں کو چھوڑ دیا یا وہ ترک دیا جو پہلے ان کے ساتھ مل کر کیا تھا۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ فورا یہ الزام لگاتے اور کہتے کہ تم نے اپنا معبود بدل لیا ہے
اگر کسی نبی علیہ السلام نے قبل از نبوت اپنی قوم کے معبودوں کی عبادت کی ہوتی، تو قوم کو روکتے وقت قوم کی آپ کو سرزنش اس سے زیادہ شدید اور مدلل ہوتی جو آپ ﷺ انہیں بتوں کی عبادت پر زجر وتوبیخ کیا کرتے تھے کہ اپنے آباٗ واجداد کا دین چھوڑ دیں۔ لیکن قریش نے کبھی آپ پر یہ الزام نہیں لگایا کہ آپ ﷺ نے ان کے معبودوں کو پہلے پوجا تھا اور پھر ترک کر دیا، لہذا، ان کا اس دعوے سے مکمل اعراض اس بات کی دلیل ہے کہ انہیں اس پر کوئی دلیل نہیں ملی۔ کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو یہ بات نقل ہوتی اور وہ اس پر کفار کبھی خاموش نہ رہتے، جیسا کہ تحویل قبلہ کے وقت انہوں نے کہا: ''انہیں اپنے قبلے سے کس چیز نے ہٹا دیا جس پر وہ پہلے تھے'' جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں بیان کیا ہے۔"
نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عصمت کی تصدیق میں علماء کی نصوص اور ان کی عبارتیں
علماء کی نصوص اور بیانات اس بات پر متفق ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعثت سے قبل بھی کفر اور دینِ جاہلیت سے محفوظ رکھا گیا۔ پس امام ابو نعیم الاصبہانی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "دلائل النبوة" میں ایک فصل تحریر کی ہے جس کا عنوان ہے: "ذِكْر مَا خَصَّهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهِ مِنَ الْعِصْمَةِ وَحَمَاهُ مِنَ التَّدَيُّنِ بِدِينِ الْجَاهِلِيَّةِ"۔ اس فصل میں انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عصمت اور دینِ جاہلیت سے آپ کی حفاظت کا تذکرہ کیا ہے۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب "دلائل النبوة" میں اس موضوع پر ایک باب مختص کیا ہے: "بَاب مَا جَاءَ فِي حِفْظِ اللَّهِ تَعَالَى رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فِي شَبِيبَتِهِ عَنْ أَقْذَارِ الْجَاهِلِيَّةِ وَمُعَايِبِهَا؛ لِمَا يُرِيدُ بِهِ مِنْ كَرَامَتِهِ بِرِسَالَتِهِ، حَتَّى بَعَثَهُ رَسُولًا"۔ اس باب میں انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جوانی میں جاہلیت کی برائیوں اور عیوب سے آپ کی حفاظت کو بیان کیا ہے۔ اور امام حافظ سیوطی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب "الخصائص الكبرى" میں ایک باب قائم کیا ہے: "بَاب اخْتِصَاصِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ بِحِفْظِ اللَّهِ إِيَّاهُ فِي شَبَابِهِ عَمَّا كَانَ عَلَيْهِ أَهْلُ الْجَاهِلِيَّةِ"۔ اس باب میں انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جوانی میں جاہلیت کی عادات سے آپ کی حفاظت کی وضاحت کی ہے۔
امام فخر الدین الرازی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "عصمة الأنبياء" میں تحریر کیا: [امت کا اجماع ہے کہ انبیاء علیہم السلام کفر اور بدعت سے معصوم ہیں] (ص: 7، ط. مطبعة الشهيد)۔
اسی طرح امام عضد الدین ایجی رحمہ اللہ نے "المواقف" میں انبیاء کی عصمت کے بارے میں کہا: [کفر کے معاملے میں امت کا اجماع ہے کہ انبیاء اس سے معصوم ہیں] (3/ 415، ط. دار الجيل)۔
شریف الجرجانی رحمہ اللہ نے "شرح المواقف" میں اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: [(کفر کے معاملے میں) امت کا اجماع ہے کہ انبیاءِ کرام نبوت سے قبل اور بعد اس سے معصوم ہیں، اور اس پر کسی کا اختلاف نہیں] (8/ 264، ط. مطبعة السعادة)۔
شمس الدین السفارینی رحمہ اللہ نے "لوامع الأنوار" میں فرمایا: [اور ان میں سے ہر ایک نبوت سے پہلے اور بعد میں کفر کی تمام اقسام سے معصوم رہا] (2/ 304، ط. مؤسسة الخافقين)۔
مذکورہ بالا تمام اقوال سے یہ عقیدہ ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبوت سے قبل بھی کفر اور جاہلیت کے طور طریقوں سے معصوم تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم نے کبھی کسی بت کو ہاتھ نہیں لگایا، نہ ہی کبھی اس کی تعظیم کی۔ بلکہ آپ ﷺ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو بھی اس سے منع فرمایا کرتے تھے حالانکہ اس وقت آپ کو وحی نازل نہیں ہوئی تھی۔
واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم۔