اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَلَوْ رَدُّو...

Egypt's Dar Al-Ifta

اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ﴾ کا مطلب

Question

سائل یہ دریافت کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فرمان ﴿وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ﴾ کا کیا مطلب ہے؟ اور "اولی الامر" سے کون لوگ مراد ہیں؟

Answer

الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛ اللہ سبحانہ وتعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ﴾ ترجمہ: اور اگر اسے رسول اور اپنے اولی الامر تک پہنچاتے تو وہ اس کی تحقیق کرتے جو ان میں تحقیق کرنے والے ہیں [النساء: 83]۔

اولی الامر سے مراد دو گروہ ہیں:

علماء: یہ وہ لوگ ہیں جو شرعی احکام کو سمجھنے اور ان کا اطلاق اعمال و اقوال پر کرنے کے حوالے سے مرجع ہوتے ہیں۔

حکام: یہ وہ افراد ہیں جو ان احکام کے نفاذ کے ذمہ دار ہوتے ہیں تاکہ معاشرتی مصالح حاصل ہوں۔ انہیں رعایا کی اصلاح کے لیے سیاستِ شرعیہ کا بھی اختیار حاصل ہوتا ہے۔

قاضی ابو بکر بن العربی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "أحكام القرآن" (جلد 1، صفحہ 472، دار إحياء التراث العربي) میں فرمایا:
"اور میرے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ اولی الامر سے مراد امراء اور علماء دونوں ہیں؛

امراء اس لیے کہ حکم اور امورِ سلطنت کی بنیاد انہی پر ہوتی ہے۔

علماء اس لیے کہ ان سے سوال کرنا عوام پر واجب ہے، ان کا جواب لازم ہے، اور ان کی فتویٰ کی تعمیل واجب ہے۔" اس وضاحت سے سوال کا جواب معلوم ہو جاتا ہے۔

والله سبحانه وتعالى أعلم.

Share this:

Related Fatwas