مجهول النسب بچوں کی کفالت کرنے اور ان کا نسب کفیل سے منسوب کرنے کا حکم
Question
مجهول النسب بچوں کی کفالت کرنے اور ان کا نسب کفیل سے منسوب کرنے کا کیا حکم ہے؟ کیا یہ شرعاً جائز ہے؟
Answer
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی سیدنا رسول اللہ وعلى آلہ وصحبہ ومن والاہ وبعد؛
یتیم کی کفالت اور پرورش کرنے، اور اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی فضیلت:
اسلام نے یتیم کی کفالت اور پرورش کرنے، اس کے ساتھ حسن سلوک کرنے اور اس کے تمام امور اور مفادات کی دیکھ بھال کرنے کی بہت ترغیب دی ہے۔ یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یتیم کی کفالت کرنے والے کو جنت میں اپنے ساتھ ہونے کی بشارت دی اور فرمایا":میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح ہوں گے" (اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت اور درمیانی انگلی کے ساتھ اشارہ کیافرمایا۔اس حدیث کو امام بخاری نے اپنی "صحیح" میں روایت کیا ہے۔اور امام مسلم اپنی "صحیح" میں روایت کرتے ہیں: "یتیم کی کفالت کرنے والا، خواہ وہ یتیم اس کا اپنا (رشتہ دار) ہو یا غیر ہو وہ اور میں جنت میں اس طرح ہوں گے" (اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہادت والی اور درمیانی انگلی مبارک سے اشارہ فرمایا)۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت کو ان لوگوں کیلئے واجب قرار دیا ہے جو یتیم کو اپنے کھانے پینے میں شریک کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا": جو شخص مسلمان ماں باپ کے کسی یتیم بچے کو اپنے کھانے اور پینے میں اس وقت تک شامل رکھتا ہے جب تک وہ اس امداد سے مشتغنی نہیں ہوجاتا (خود کمانے لگ جاتا ہے) تو اس کے لئے یقینی طور پر جنت واجب ہوتی ہے "۔ اس حدیث کو امام احمد نے اپنی "مسند" میں روایت کیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: "بے شک اللہ کے نزدیک سب سے محبوب گھر وہ ہے جس میں یتیم کو عزت دی جاتی ہے"۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے "المعجم الکبیر" میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً روایت کیا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: '' بیوہ اورمسکین کے لیے کوشش والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔اور میرا (عبد اللہ بن مسلمہ کا) خیال ہے کہ انھوں (مالک رحمۃ اللہ علیہ) نے کہا: وہ (اللہ کے سامنے) اس قیام کرنے والے کی طرح ہے جو وقفہ کرتا ہے نہ تھکتا ہے اور اس روزے دار کی طرح ہے جو روزہ نہیں چھوڑتا۔ "۔ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
منہ بولے بیٹے (تبنی) کا مفہوم اور اس کا حکم:
تبنی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص دوسرے کے بچے کو اپنا بیٹا بنا لے۔ اسلام نے تبنی کو حرام قرار دیا اور اس پر مرتب ہونے والے تمام آثار کو باطل قرار دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا:''اللہ نے کسی آدمی کے سینے میں دو دل نہیں رکھے ہیں، اور نہ ہی تمہاری ان بیویوں کو جنہیں تم ماں کہہ بیٹھتے ہو، تمہاری مائیں بنایا ہے، اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے حقیقی بیٹے بنایا ہے۔ یہ تو تمہارے اپنے منہ کی باتیں ہیں، اور اللہ حق بات کہتا ہے اور وہی سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے۔ انہیں ان کے (حقیقی) باپوں کے نام سے پکارا کرو، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ انصاف کی بات ہے۔ اور اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو وہ دین میں تمہارے بھائی اور دوست ہیں۔ اور تمہیں اس میں بھول چوک ہو جائے تو تم پر کچھ گناہ نہیں لیکن وہ جو تم دل کے ارادہ سے کرو، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ "[سورہ احزاب: 4-5]۔ اسلام نے حکم دیا کہ جو شخص کسی کی کفالت کرے وہ اسے اپنی طرف منسوب نہ کرے، بلکہ اگر بچے کا حقیقی باپ معلوم ہو تو اسی کی طرف منسوب کیا جائے اور اس کے نام کے ساتھ اسے پکارے۔ اگر باپ نامعلوم ہو تو اسے دینی بھائی یا دوست کہا جائے۔ یہ حکم اس لیے دیا گیا تاکہ حقائق تبدیل نہ ہوں، ورثاء کے حقوق ضائع یا کم نہ ہوں، اور اجنبیوں کے درمیان غیر شرعی اختلاط سے بچاؤ ہو سکے۔ خاص طور پر منہ بولے بیٹے کا کفیل کی محرم خواتین سے یا منہ بولی بیٹی کا کفیل، اس کے بیٹوں یا رشتہ داروں کے ساتھ غیر شرعی تعلق پیدا ہونے سے تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔
منہ بولے بچے کے نام کے ساتھ کفیل کا لقب لگانے کا حکم
کفیل کے لقب کو مکفول کے نام کے ساتھ شامل کرنا شرعی طور پر حرام تبنی کے دائرے میں نہیں آتا بلکہ یہ شرعاً جائز ہے کہ یتیم یا لاوارث بچے کے کفیل (مرد ہو یا عورت) کے خاندان کا لقب اس طریقے سے اس بچے کے ساتھ منسلک کیا جائے، یا بچے کا آخری نام تبدیل کرکے کفیل کے خاندان کا نام رکھا جائے کہ یہ تبدیلی محض بچے کی خاندان سے عمومی نسبت ظاہر کرنے کے لیے ہو، نہ کہ یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ کفیل کا حقیقی بیٹا یا بیٹی ہے۔ یہ عمل قدیم زمانے سے عرب قبائل میں موجود "عُلَقَة الوَلاء" (وفاداری یا تعلق) کے مشابہ ہے اور ولاء شرعی طور پر جائز ہے اور یہ عمل بچے کی فلاح وبہبود کے لیے عمر کے مختلف مراحل میں مفید ثابت ہوتا ہے، بشرطیکہ گود لینے کی ممانعت اور اس سے متعلق شرعی اثرات کا مکمل لحاظ رکھا جائے۔
والله سبحانه وتعالى أعلم.